Views: 699
Wasi Shah: دل میں افسوس آنکھوں میں نمی سی رہتی ہے
دل میں افسوس آنکھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے
مجھہ سے روٹھہ جاتے ہیں اکثر اپنے وصی
شائد میرے خلوص میں کمی سی رہتی ہے
Written by Arslan
Wasi Shah: کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے
کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے
کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے
کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لیے غم اٹھایا کرتے تھے
فون پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے تھے
آخری میں اس کو لکھا ہے
تم مجھے یاد آیا کرتے تھے
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے
Wasi Shah: جھک گئی جب یہ انا تیرے در سفاک پر
جھک گئی جب یہ انا تیرے در سفاک پر
مجھ سے مت پوچھو کہ کیا گزری دل بے باک پر
اس زمیں سے آسماں تک میں بکھرتی ہی گئی
اب نہ سمٹی تو گروں گی ایک دن میں چاک پر
میں رہی اک ہجر میں اور ایک اب ملنے کو ہے
جان سے میں یوں گئی تو خاک ڈالو خاک پر
اب وہاں پھوٹیں گے پھر سے لالہ و گل دیکھنا
ہو رہا ہے خون کا چھڑکاؤ ارض پاک پر
یہ تری یادوں کے جگنو یا کہ آنسو ہیں مرے
جو ستارے سے چمکتے ہیں مری پوشاک پر
کیوں دیار غیر میں مرجھا گئے چہروں کے پھول
برف سی گرتی رہی اس دیدۂ نم ناک پر
جس طرح گزری ہے میری زندگانی کیا کہوں
تو وہاں بیٹھا ہے پھر کس کے لئے افلاک پر
Wasi Shah: ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺟﺴﮯ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺭﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ
ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﭼﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﯿﮑﻦ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﭽﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ
Also Visit: https://poetrypk.com/best-no-1-poetry-of-tahzeeb-haafi/
Wasi Shah: تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
Wasi Shah: میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ہے
میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ہے
آج پھر دل کو تڑپنے کی لگن کیسی ہے
اب کسی چھت پہ چراغوں کی قطاریں بھی نہیں
اب ترے شہر کی گلیوں میں گھٹن کیسی ہے
برف کے روپ میں ڈھل جائیں گے سارے رشتے
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اگن کیسی ہے
میں ترے وصل کی خواہش کو نہ مرنے دوں گا
موسم ہجر کے لہجے میں تھکن کیسی ہے
ریگزاروں میں جو بنتی رہی کانٹوں کی ردا
اس کی مجبور سی آنکھوں میں کرن کیسی ہے
مجھے معصوم سی لڑکی پہ ترس آتا ہے
اسے دیکھو تو محبت میں مگن کیسی ہے
Wasi Shah
Publish by Arslan
1 Comment
Add a Comment