Views: 165
Amjad Islam Amjad: کیا کیا ہمارے خواب تھے
کیا کیا ہمارے خواب تھے ، جانے کہاں پہ کھو گئے
تم بھی کسی کے ساتھ ہو ، ہم بھی کسی کے ہو گئے
جانے وہ کیوں تھے ، کون تھے ؟ آئے تھے کس لیے یہاں
وہ جو فشار وقت میں ، بوجھ سا ایک دھو گئے
اس کی نظر نے یوں کیا گرد ملال جان کو صاف
اَبْر برس کے جس طرح ، سارے چمن کو دھو گئے
کٹنے سے اور بڑھتی ہے اٹھے ہوئے سرو کی فصیل
اپنے لہو سے اہل دل ، بیج یہ کیسے بو گئے
جن کے بخیر اک پل ، جینا بھی مُحال تھا
شکلیں بھی ان کی بجھ گئیں ، نام بھی ان کے کھو گئے
آنکھوں میں بھر کے رت جگے ، رستوں کو دے کے دوریاں
امجد وہ اپنے ہمسفر ، کیسے مزے سے سو گئے
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad: کتنی سرکش بھی ہو
کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا
رات جب تک رہے اے مرے ہم نوا رکھنا روشن دیا
روشنی کا وظیفہ نہیں وہ چلے راستہ دیکھ کر
وہ تو آزاد ہے مثل موج صبا رکھنا روشن دیا
رات کیسی بھی ہو خوف کے چور کی گھات کیسی بھی ہو
اپنی امید کا اپنے وشواس کا رکھنا روشن دیا
شب کی بے انت ظلمت سے لڑ سکتی ہے ایک ننھی سی لو
راہ بھولے ہوؤں کو ہے بانگ درا رکھنا روشن دیا
آشنا کی صدا گھپ اندھیرے میں بن جاتی ہے روشنی
اس شب تار میں اپنی آواز کا رکھنا روشن دیا
روشنی کی شریعت میں روز ازل سے یہی درج ہے
جوت سے جوت جلتی رہے گی سدا رکھنا روشن دیا
مجھ سے امجدؔ کہا جھلملاتے ہوئے اختر شام نے
اس کو آنا ہی ہے وہ ضرور آئے گا رکھنا روشن دیا
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad: سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سب کے سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں
دائروں کی حد سے باہر سوچتا کوئی نہیں
صرف ماتم اور زاری سے ہی جس کا حل ملے
اس طرح کا تو کہیں بھی مسئلہ کوئی نہیں
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
جو ہوا یہ درج تھا پہلے ہی اپنے بخت میں
اس کا مطلب تو ہوا کہ بے وفا کوئی نہیں
تیرے رستے میں کھڑے ہیں صرف تجھ کو دیکھنے
مدعا پوچھو تو اپنا مدعا کوئی نہیں
کن فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کر
کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں
وقت ایسا ہم سفر ہے جس کی منزل ہے الگ
وہ سرائے ہے کہ جس میں ٹھہرتا کوئی نہیں
گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ
یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad: تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا
تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کَہہ سکا نہ تُو سُن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ترے شہر میں مِرا ہم سفر، وہ دُکھوں جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
وہ جو خواب تھے مِرے سامنے، جو سراب تھے مِرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ہُوا جس گھڑی ترا سامنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
کہیں بے کنار تھی خواہشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو مِرا خدا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تری کھڑکیوں پہ جُھکے ہوئے، کئی پھول تھے ہمییں دیکھتے
تری چھت پہ چاند ٹھہر گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
مجھے وہم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں مِری
سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
Amjad Islam Amjad
also visit: https://poetrypk.com/ambreen-haseeb-amber-most-popular-best-ghazals/
Written & Publish by Arslan